لاہور (این این ایس نیوز) نامور صحافی ثقلین امام بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ چین اور ایران کے درمیان 400 ارب ڈالر کی مالیت پر مبنی 25 برس کے طویل اور جامع اقتصادی تعاون کے منصوبے پر امریکہ کا سرکاری رد عمل اب تک سامنے نہیں آیا تاہم
تجزیہ نگار اس پیشرفت کو نہ صرف خطے کے لیے بلکہ عالمی اقتصادی نظام میں ایک اہم ’گیم چینجر‘ قرار دے رہے ہیں۔اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی سفارت کار اور تجزیہ کار پاکستان میں پائی جانے والی عمومی بے چینی کہ اب چین ایران کا رخ کر رہا ہے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین اور ایران کا اقتصادی تعاون کا حالیہ معاہدہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کا متبادل نہیں ہو گا بلکہ اُس کو تقویت بخشے گا۔ماہرین کے مطابق تہران نے چین کے ساتھ طویل المدتی اقتصادی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سلامتی کے معاملات میں تعاون کر کے اپنے آپ کو نئے عالمی حالات کے لیے ایک طاقتور ملک بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا کرنے کی صورت میں جہاں ایک جانب وہ امریکہ کے نئے عتاب کا شکار بھی بن سکتا ہے، وہیں دوسری جانب ممکن ہے کہ یہ معاہدہ اُسے امریکہ کی مسلسل پابندیوں کی تکلیف سے نجات بھی دلا دے۔امریکہ کی کافی عرصے سے ایران پر عائد پابندیاں ہی اُسے چین کے اتنا قریب لے آئی ہیں کہ وہ اپنا تیل عالمی نرخوں سے قدرے کم قیمت پر چین کو اس لیے فروخت کرنے کے لیے تیار ہو گیا تاکہ اُس کے تیل کی فروخت کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہ سکے اور اُسے قومی دولت میں ایک قابلِ اعتماد آمدن کا ذریعہ حاصل ہو سکے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاہدے کی دستاویزات تو ابھی سامنے نہیں آئی ہیں لیکن جو تفصیلات معلوم ہیں ان کے مطابق اگلے 25 برسوں میں ایران کی خستہ حال معیشت میں 400 ارب ڈالر کی مالیت کے منصوبے
اقتصادی استحکام لانے میں اس کی کافی مدد دے سکتے ہیں۔اس کے بدلے میں چین رعایتی نرخوں پر تیل، گیس اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات ایران سے خرید سکے گا۔ اس کے علاوہ بیجنگ ایران کے مالی، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔اس معاہدے کے تحت بتایا گیا ہے کہ ایران کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دونوں ممالک مشترکہ تربیتی مشقوں، ہتھیاروں کی ترقی اور انٹلیجنس کے اشتراک سے فوجی اور ریاستی سلامتی کے امور میں تعاون کریں گے۔دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے پانچ ہزار فوجی بھی ایران میں تعینات کیے جائیں گے لیکن واضح رہے کہ ایران میں اس بات کی مخالفت بھی ہو رہی ہے جس میں سابق ایرانی صدر احمدی نژاد پیش پیش ہیں۔اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایران شاید چین کی نئی ڈیجیٹل کرنسی E-RMB کو اپنانے کے لیے مثالی امیدوار ثابت ہو، جس نے ڈالر کو نظرانداز کرنے اور اس کی منظوری دینے والی طاقت کو کمزور کیا ہے۔یاد رہے کہ ایران اس وقت عالمی مالیاتی اور بینکاری نظام SWIFT سے منسلک نہیں اور وہ ایران سے کسی قسم کا کوئی لین دین نہیں کر رہا۔پاکستان چین انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کے مطابق ایران چین سٹریٹجک معاہدہ خطے کے لیے ایک اچھی پیشرفت ہے اور پاکستان کے مفادات کے لیے مثبت بھی ہے کیونکہ اس سے ایک ایسے علاقائی معاشی تعاون کو تقویت ملے گی جس کا مرکز پاکستان ہے یعنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چلنے والا سی پیک منصوبہ
Add comment