لاہور (این این ایس نیوز) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔1979ء سے لے کر 1988تک سوویت یونین اور افغان ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان بدامنی کا شکار تھا ، لیکن 1988ء میں جیسے ہی سوویت افواج نکلیں تو اس وقت سے لے کر گیارہ ستمبر 2001ء تک بارہ سال
کا ایک ایسا پرامن دور ہے جب کوئٹہ کی جناح روڈ اور پشاور کے قصہ خوانی بازار کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔افغانستان کے مسلمانوں اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے درمیان جو اخوت ہے ،دراصل وہ ایک ایسی ’’سٹریٹجک گہرائی‘‘ہے جسے کسی پاکستانی حکمران یا افغانستانی دانشور کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ اخوت ہے کہ علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخری ایّام میں افغانستان صرف اس لیئے گئے تھے کہ اگر ان کے خوابوں کی تعبیر پاکستان وجود میں آگیا تو افغان ملت اس نوزائیدہ ملک کی پشت پناہ ہو۔ وہیں انہوں نے کہا تھا فکرِ رنگانم کند نذرِ تہی دستانِ مشرق پارۂ لعلے کہ دارم از بدخشانِ شما ’’تمہارے بدخشاں سے جو لعل کا ٹکڑا میرے پاس ہے اسے میری رنگین فکر مشرق نے تہی دستوں کو نذر کر دی‘‘۔ غزنی شہر میں داتا گنج بخش علی بن عثمانؒ کے والد عثمان بن علیؒ کا مزار، ابوالحسن خراسانیؒ کے خرقوں کی کرامات اور شہاب الدین غوری کی فتح۔ مولانا جامی کی نعت مولانا روم کی مثنوی، ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے جد امجد اور برصغیر میں مدفون ہزاروں اولیاء اللہ کا قدیم وطن ’’افغانستان‘‘ وہ زنجیر ہے جس سے پاکستان اور افغانستان کے عوام بندھے ہوئے ہیں۔ جب 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا تو سوات اور بنیر کے پہاڑوں کے درمیان ایک کٹیا میں رہنے والے ایک صاحبِ نظر نے کہا تھا، روس شکست کھائے گا، پھر امریکہ آئے گا، شکست کھائے گااور پھر ایک دن وہ آئے گا جب افغانستان اور پاکستان ایسے ہوں گے جیسے ایک ملک۔درویش کی دو پیش گوئیاں تو پوری ہوچکیں تیسری کا انتظار ہے۔
Add comment